خیبر پختونخواہ سے باہر رہنے والے کاکازئی (لوئی ماموند) پشتونوں کی راہنمائی کےلیے چند اہم سوالات و جوابات

Bajaur (باجوڑ / بجوڑ) - Kakazai (Loi Mamund) Pashtuns' Ancestral Land in Pakistan

!خیبر پختونخواہ  سے باہر رہنے والے بھائیوں اور بہنوں کی راہنمائی  کے لیے

کاکازئی (لوئی ماموند) صِرف اور صِرف پشتون ہیں

کون سے ہجّے، “کاکازئی”، “ککازئی”، “ککےزئی” یا “ککی زئی”، تاریخی اور معنوی اعتبار سے درُست ہیں؟

کاکازئی، بُنیادی اور نسلی اعتبار سے پشتون ہیں۔ چُونکہ پشتونوں ، پختونوں یا پٹھانوں کی اصل زبان پشتو ہے، اور کاکازئی بھی پشتو زُبان کے الفاظ ہیں تویہ معلوم کرنا انتہائی منطقی ہوگاکہ “کاکازئی”، “ککا زئی”، “ککےزئی” یا “ککی زئی” کا پشتو میں مطلب یا معانی کیا ہیں۔ لیکن اس سے پہلے ہمیں اس بات کو جاننا ہوگا کہ ہم “کاکازئی” استعمال ہی کیوں کرتے ہیں۔ تو اس کے لیے ہمیں کاکازئی کا شجرہ دیکھنا ہوگا۔

ماموند یا مموند (محمود):  کاکازئی پختونوں کےوالدِ محترم کا نام محمود تھا جو کہ ‘ماموند’ یا ‘مموند’ کے نام سے بھی مشہورتھے (ان کا مزار ِاقدس موضع داگ، تحصیل ماموند، باجوڑ ، میں آج بھی موجود ہے) کے دو بیٹے تھے۔ بڑے کی اولاد کو “کاکازئی” اور چھوٹے کی اولاد کی “ووڑ” یا “واڑہ”کہا جاتاہے۔

کاکا یا ککا:‘کاکا’ یا ‘ککا’ پشتو میں عزّت و اِحترام کا لفظ ہے جو کہ بڑے (مثلاً بڑا بھائی، بڑا بیٹا وغیرہ )کےلیے استعمال ہوتا ہے۔

ووڑ، وڑہ یا واڑہ:  ‘ووڑ’ ، ‘وڑہ’یا ‘واڑہ’پشتو میں چھوٹے (مثلاً چھوٹا بھائی، چھوٹا بیٹا وغیرہ )کےلیے استعمال ہوتا ہے۔

زَئی(پشتومیں’ زي’) : ‘زوئی’ کے پشتو میں لفظی معنی ‘بیٹا’ اور ‘زَئی'(پشتومیں” زي”) کا “نسل” یا “اَولاد”ہے۔ پشتو میں ‘ئی’کا تلفّظ ‘ی’ہے، یعنی ‘زَئی’کو ‘زِی'(زي) بولا جاتا ہے۔

یعنی محمود (ماموند یا مموند) کے دو بیٹے تھے: بڑے بیٹے کو احترام کے ساتھ کاکا یا ککا (بڑا بیٹا) اور اس کی نسل یا اولاد کو “کاکازئی” (بڑے  کی نسل یا اولاد یا بڑے بیٹے کی نسل یا اولاد) اور چھوٹے کوپیار سے ووڑ ، وڑ یا واڑہ (چھوٹا بیٹا) اور اس کی نسل یا اولاد کو صرف “ووڑ” یا “ووڑزئی” (چھوٹے کی نسل یا اولاد یا چھوٹے بیٹے کی نسل یا اولاد) پُکارا جاتا ہے۔

اسی مُناسبت سے “کاکازئی” کو “لوئی” یا “لوئے” ماموند بھی پکارا جاتا ہے۔ اور ووڑ ، وڑ یا واڑہ کو “وڑہ” یا “واڑہ ماموند” بھی پکارا جاتا ہے۔

لوئی یا لوئے: ‘لوئی’ یا ‘لوئے'(پشتو میں” لوی” )بھی پشتو میں بڑے کےلیے استعمال ہوتاہے۔

لوئی ماموند اور وڑہ یا واڑہ ماموندکے معانی: لوی /لوئےیا لوئی ماموند یعنی “بڑا ماموند” یا بڑے ماموند (محمود) کی نسل یا اَولاد۔
وڑہ یا واڑہ ماموند یعنی “چھوٹا ماموند” یاچھوٹے ماموند (محمود) کی نسل یا اَولاد ۔

یاد رہے کہ باجوڑ میں نہ صرف ماموند کی قبر موجود ہے بلکہ وہاں ایک علاقے کا نام، ماموند، بھی ہے، اور اسی علاقے کی 2 تحصیلیں ہیں، جن میں ایک کا نام تحصیل لوئی ماموند ہے، اور دوسری  کا نام تحصیل واڑہ ماموند ہے۔

  جیسا کہ اب تک واضع ہوگیا ہوگا کہ یہاں “کاکا” سے مُراد کوئی شخص یا کسی شخص کا نام نہیں بلکہ بڑا بیٹا مراد ہے۔

اب دیکھتے ہیں کہ ‘ککے’ اور ‘ککی’ کے پشتو میں کیا معانی ہیں؟

ککے: ‘ککے’ ایک متروک لفظ یا نام ہے، جو کہ ماضی میں پختون اپنے بیٹےکو دیا کرتے تھے۔ آج کے دور میں شاید ہی کوئی پختون اپنے بیٹے کو یہ نام دیتا ہو۔ شا ید خیبرپختونخواہ اور افغانستان کے کسی دُور دراز علاقے میں لوگ اس نام کو آج بھی استعمال کرتے ہوں لیکن کم از کم شہروں میں رہنے والے پختون یہ نام آجکل استعمال نہیں کرتے۔

ککی:‘ککی’ ، پشتو میں ایک نوزائیدہ بچّے یا بچّی کو کہتے ہیں۔

المختصر، یہاں “ککے” بطور بیٹے یاکسی شخص کا نام نہیں ہے اور نہ ہی “ککی” ہے، کہ پشتو میں اس کا مطلب، نوزائیدہ بچّہ یا بچّی ہے۔ اس لیے اصل میں لفظ ‘ کاکا ‘یا ‘ککا ‘ہے۔ چونکہ “ککا” کوبولنے میں بھی”کاکا” کی ہی طرح ادا کیا جاتا ہے اور بزرگ پشتون ،اُردو اور انگریزی تاریخ دانوں نے اپنی تاریخی کتابوں، حیاتِ افغانی، صولتِ افغانی وغیرہ میں، کاکا زئی یا ککا زئی (کاکازئی) ہی استعمال کیا ہے، اور یہی خیبر پختونخواہ اور باجوڑ میں بھی استعمال کیا جاتا ہے، اس لیے کاکازئی  (بڑے  کی نسل یا اولاد یا بڑے  بیٹے کی نسل یا اولاد) لکھنا زیادہ موزوں، منطقی، صحیح اور درُست ہے۔

 


 

!خیبر پختونخواہ  سے باہر رہنے والے بھائیوں اور بہنوں کی راہنمائی  کے لیے

کیا کاکازئی “ملک” ہیں یا “کاکازئی ملک” ایک علیحدہ قوم یا کاکازئی کی ایک شاخ ہے؟

کاکازئی “ملک” نہیں ہیں اور نہ ہی “کاکازئی ملک” ایک علیحدہ قوم یا کاکازئی کی ایک شاخ ہے۔

مَلک: یہ لفظ عربی زبان کا ہے ۔عربی، پشتو اور اُردو میں  اس کے معنی بزرگ، سَردار،بادشاہ، سلطان، فرمانروا، شہریاریا  ایک خطاب جو اکثر مسلمان قوموں میں رائج کے ہیں۔

  انگریزوں نے مَلِک (پشتو میں جمع: ملکان یا ملکانان /اُردو میں جمع: ملوک)  کا لقب ، جیسے خان بہادُر،  دیوان بہادُر، رائے/راؤ بہادُر، رائے /راؤ صاحب  وغیرہ ،بمع مراعات  ،پختونوں میں اُن لوگوں کو دیا  جن لوگوں نے برِّصغیر پاک وہند میں ان کا استعمار قائم رکھنےمیں ان کی مدد و اعانت کی ۔ پختون قبائل کے گاؤں کے بڑے کو ، یا جرگہ کے بزرگ کو بھی مَلِک کہا جاتا ہے۔

 کئی دُوسری قومیں بھی، مثلاًاعوان، ہندو جاٹ، سکھ جاٹ، گجراتی، تیلی  وغیرہ، مَلِک کو اپنےنام کے ساتھ اِستعمال کرتی ہیں۔

ککے یا کاکازئی  ملک ، پختونوں میں ایک علیحدہ قوم یا قبیلہ نہیں ہے۔ اور نہ  ہی ا س کا   تعلّق پختونوں یا کاکازئی پشتونوں کے ساتھ یا ان کی تاریخ کے ساتھ ہے۔

اب آپ خُود منطقی طور پرسوچیں کہ ایک خاندان میں، ایک برادری میں ،ایک قبیلے میں، ایک جرگے میں، ایک گاؤں میں، ایک شہرمیں، ایک مُلک وغیرہ میں آخر کتنے  مَلِک ہوسکتے ہیں۔ مزید یہ کہ اگر ایک شخص اپنے آپ کو ایک طرف پختون، یعنی کاکازئی، کہتا ہو اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ وہ  ملک ہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ مَلِک بھی ہو اور پختون بھی، خصوصاً جب اُس کے آس پاس   نہ صرف اسکی اپنی برادری کے لوگ بلکہ، دُوسری قوموں کے لوگ بھی، مثلاًاعوان، ہندو جاٹ، سکھ جاٹ، گجراتی، تیلی  وغیرہ، “مَلک” کو اپنےنام کے ساتھ اِستعمال کررہے ہوں۔اس لیے،  ازراہِ مہربانی! “ملک” کو اپنے نام کے ساتھ استعمال کرنے سے خود بھی اجتناب کریں اور اپنے اہل و عیال کو بھی منع کریں۔

 


 

!خیبر پختونخواہ  سے باہر رہنے والے بھائیوں اور بہنوں کی راہنمائی  کے لیے

کیا کاکازئی “شیخ” ہیں یا “کاکازئی شیخ” ایک علیحدہ قوم یا کاکازئی کی ایک شاخ ہے؟

کاکازئی “شیخ” نہیں ہیں اور نہ ہی “کاکازئی شیخ” ایک علیحدہ قوم یا کاکازئی کی ایک شاخ ہے۔

شیخ: یہ  لفظ عربی زبان کا ہے ۔عربی، پشتو اور اُردو میں   شیخ کے معنی بوڑھا آدمی، پیر، مُرشد، بزرگ، مذہبی علوم میں فائق، سرگردہ، پیشوا، خانقاہ کا سردار، سجادہ نشین، مُسلمانوں کی ایک ذات، عرب کا سردار کے ہیں۔  

برِّصغیر پاک وہند  میں مسلم حکمرانوں کے دربار میں   ملازم قانونگوہ (قانون پڑھنے والے)  کو شیخ کہا جاتاتھا-ان میں دُوسری قوموں کے علاوہ  کچھ  پختون بھی تھے – یہ لوگ قانونگوہی کے شعبوں میں ، بطور قاضی، جج، وکیل ، پٹواری ، رجسٹرار  وغیرہ   خدمات انجام دیتے تھے-

ہندو ان لوگوں کو شیخ کہتے تھے جن لوگوں نے عربی شیخ تاجران کے مذہب، دینِ اسلام،  کو قبُول کیا تھا۔ ہندو ان لوگوں کو بھی شیخ کہتے تھے جنہوں نےسرزَمینِ  عرب سے برِّصغیر پاک وہند   کی طرف ہجرت کی تھی۔

کئی دُوسری قومیں بھی، مثلاًکھتری،ہندو برہمن، راجپوت، بھٹی،  خواجہ ،کشمیری، صدیقی، میاں، راٹھور،  چوہان، رنگریز  وغیرہ، شیخ کواپنےنام کے ساتھ اِستعمال کرتی ہیں۔

“ککے یا کاکازئی شیخ” ، پختونوں میں ایک علیحدہ قوم  یا قبیلہ نہیں ہے۔ اور نہ  ہی ا س کا   تعلّق پختونوں یا کاکازئی پشتونوں کے ساتھ یا ان کی تاریخ کے ساتھ ہے۔

اب آپ خُود منطقی طور پرسوچیں کہ ایک خاندان میں، ایک برادری میں ،ایک قبیلے میں، ایک جرگے میں، ایک گاؤں میں، ایک شہرمیں، ایک مُلک وغیرہ میں آخر کتنے  شیخ ہوسکتے ہیں۔ مزید یہ کہ اگر ایک شخص اپنے آپ کو ایک طرف پختون، یعنی کاکازئی، کہتا ہو اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ وہ شیخ ہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ شیخ بھی ہو اور پختون بھی، خصوصاً جب اُس کے آس پاس نہ صرف اسکی اپنی برادری کے لوگ بلکہ، دُوسری قوموں کے لوگ بھی، مثلاًکھتری،ہندو برہمن، راجپوت، بھٹی،  خواجہ ،کشمیری، صدیقی، میاں، راٹھور،  چوہان، رنگریز  وغیرہ ، “شیخ “کو اپنےنام کے ساتھ اِستعمال کررہے ہوں۔ اس لیے،  ازراہِ مہربانی! “شیخ” کو اپنے نام کے ساتھ استعمال کرنے سے خود بھی اجتناب کریں اور اپنے اہل و عیال کو بھی منع کریں۔

 


 

!خیبر پختونخواہ  سے باہر رہنے والے بھائیوں اور بہنوں کی راہنمائی  کے لیے

کیا کاکازئی “آغا” ہیں یا “کاکازئی آغا” ایک علیحدہ قوم یا کاکازئی کی ایک شاخ ہے؟

کاکازئی “آغا” نہیں ہیں اور نہ ہی “کاکازئی آغا” ایک علیحدہ قوم یا کاکازئی کی ایک شاخ ہے۔

آغا:  یہ  لفظ تُرکی  اور فارسی  زبان کے علاوہ اب پشتو اور اُردو میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس کے معنی آقا، صاحب، مالک، خداوند، بڑا بھائی  کے ہیں۔یہ تُرک    حکمران  اپنے سول اور فوجی افسران کو  ایک لقب کے طور پر دیتے تھے۔یہ کابلیوں اور مغلوں کےخطاب  کے طور پر بھی استعمال ہوتا تھا۔

ا س کا پختونوں یا کاکازئی پشتونوں کے ساتھ یا ان کی تاریخ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

اس لیے،  ازراہِ مہربانی! “آغا” کو اپنے نام کے ساتھ استعمال کرنے سے خود بھی اجتناب کریں اور اپنے اہل و عیال کو بھی منع کریں۔

 


 

!خیبر پختونخواہ  سے باہر رہنے والے بھائیوں اور بہنوں کی راہنمائی  کے لیے

کیا کاکازئی “پاشا” ہیں یا “کاکازئی پاشا” ایک علیحدہ قوم یا کاکازئی کی ایک شاخ ہے؟

کاکازئی “پاشا” نہیں ہیں اور نہ ہی “کاکازئی پاشا” ایک علیحدہ قوم یا کاکازئی کی ایک شاخ ہے۔

پاشا: یہ  لفظ تُرکی  اور فارسی  زبان کے علاوہ اب پشتو اور اُردو میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس کے معنی حاکم، عامل، گورنر، نواب، سردار، لارڈ کے ہیں اور یہ تُرکی سرداروں کا خطاب و لقب  بھی تھا۔

اس کا پختونوں یا کاکازئی پشتونوں کے ساتھ یا ان کی تاریخ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

اس لیے،  ازراہِ مہربانی! “پاشا” کو اپنے نام کے ساتھ استعمال کرنے سے خود بھی اجتناب کریں اور اپنے اہل و عیال کو بھی منع کریں۔

 


 

!خیبر پختونخواہ  سے باہر رہنے والے بھائیوں اور بہنوں کی راہنمائی  کے لیے

کیا کاکازئی “میر” ہیں یا “کاکازئی میر” ایک علیحدہ قوم یا کاکازئی کی ایک شاخ ہے؟

کاکازئی “میر” نہیں ہیں اور نہ ہی “کاکازئی میر” ایک علیحدہ قوم یا کاکازئی کی ایک شاخ ہے۔

مِیر:  یہ لفظ بُنیادی طور پر عربی زبان کا ہے لیکن اس کو پشتو، اُردو اور دیگر زبانوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے معنی افسر، سردار، سرگَردہ، سالار، چودھری، مقدم، ہادی، راہ نما، پیشوائے دین کے ہیں۔یہ سیّدوں کااعزازی لقب بھی ہے۔

برِّصغیر پاک وہند  میں اس کا زیادہ تر استعمال کشمیر اور سندھ کے لوگ کرتےہیں اور بعض کشمیری اور سندھی اس کو اپنے نام کے ساتھ بطور فیملی نام بھی استعمال کرتے ہیں۔

اس کا پختونوں یا کاکازئی پشتونوں کے ساتھ یا ان کی تاریخ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

اس لیے،  ازراہِ مہربانی! “مِیر” کو اپنے نام کے ساتھ استعمال کرنے سے خود بھی اجتناب کریں اور اپنے اہل و عیال کو بھی منع کریں۔

 


 

!خیبر پختونخواہ  سے باہر رہنے والے بھائیوں اور بہنوں کی راہنمائی  کے لیے

کیا کاکازئی “سردار” ہیں یا “کاکازئی سردار” ایک علیحدہ قوم یا کاکازئی کی ایک شاخ ہے؟

کاکازئی “سردار” نہیں ہیں اور نہ ہی “کاکازئی سردار” ایک علیحدہ قوم یا کاکازئی کی ایک شاخ ہے۔

سردار:   یہ لفظ فارسی زبان کا ہے لیکن اب پشتو اور اُردو میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس کے معنی سرغنہ، افسر،  سرگردہ کے ہیں۔

برِّصغیر پاک وہند  میں اس کا زیادہ تر استعمال کشمیر کے لوگ کرتےہیں اور بعض کشمیری اس کو اپنے نام کے ساتھ بطور فرسٹ یا فیملی نام کےبھی استعمال کرتے ہیں۔

ا س کا پختونوں یا کاکازئی پشتونوں کے ساتھ یا ان کی تاریخ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

اس لیے،  ازراہِ مہربانی! “سردار” کو اپنے نام کے ساتھ استعمال کرنے سے خود بھی اجتناب کریں اور اپنے اہل و عیال کو بھی منع کریں۔

 


 

!خیبر پختونخواہ  سے باہر رہنے والے بھائیوں اور بہنوں کی راہنمائی  کے لیے

کیا ایک کاکازئی کےلیے اپنے نام کے ساتھ صرف “زئی” استعمال کرنا مُناسب ہے؟

اگر آپ فی الحقیقت   کاکازئی  ہیں، تو آپ کےلیے اپنے نام کے ساتھ، مکّمل “کاکازئی” استعمال کرنا ہی مُناسب ہے۔

زَئی  : یہ لفظ بُنیادی طور پر پشتو سے ہے- اس کے معنی اَولاد، نسل، خاندان، قبیلہ،  ذیلی قبیلہ کے ہیں۔

لیکن صرف ‘زَئی’ کو ، مثلاً عبدالرحمٰن زئی (یعنی عبدالرحمٰن کی اولاد یا نسل) ، اپنے نام کے ساتھ استعمال کرنا، جب کہ استعمال کرنے والا خُود کو کاکازئی بھی کہتا ہو، بالکل عجیب، بے سروپا اور غیرمنطقی ہے۔

اس لیے،  ازراہِ مہربانی! صرف یا خالی “زَئی” کو اپنے نام کے ساتھ استعمال کرنے سے خود بھی اجتناب کریں اور اپنے اہل و عیال کو بھی منع کریں۔

 


 

!خیبر پختونخواہ  سے باہر رہنے والے بھائیوں اور بہنوں کی راہنمائی  کے لیے

کیا میرا اپنے نام کے ساتھ “خان” یا “کاکازئی” استعمال کرنا ضروری ہے؟

اگر آپ فی الحقیقت   کاکازئی  ہیں، تو آپ کےلیے اپنے نام کے ساتھ، “خان” یا “کاکازئی” استعمال کرنا بالکل بھی ضروری نہیں ہے۔

ہر شخص، جو اپنے نام کے ساتھ “خان” لکھتا ہے، ضروری نہیں کہ وہ پشتون بھی ہو، جیسے ہر پشتو والا پشتون نہیں ہے۔

بس آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کاکازئی (لوئی ماموند) پشتون قبیلہ کے ساتھ تعلّق رکھتے ہیں، جو کہ بُنیادی اور نسلی طور پر ترکلانی اور سڑبنی پشتون ہیں اور لغمان، افغانستان سے ہجرت کرکے دیگر علاقوں میں آباد ہوئے۔ اور یہ کہ کاکازئی پشتونوں کے والدِ محترم کا اصل نام محمود (ان کا مزارِ اقدس، موضع داگ، تحصیل ماموند، باجوڑ، میں آج بھی موجود ہے۔) تھا جو کہ ماموند (مہمند نہیں) کے نام سے جانے جاتے تھے۔ چُونکہ ماموند کے دو بیٹے تھے، اور پشتو میں “کاکا” بڑے کے لیے اور “ووڑ” چھوٹے کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس لیے بڑے بیٹے کی اولاد کو کاکازئی اور چھوٹے بیٹے کی اولاد کو صرف ووڑ یا ووڑزئی کہا جاتا ہے۔ اسی مُناسبت سے کاکازئی کو لوئی ماموند( یعنی بڑا ماموند) اور ووڑ یا ووڑزئی کو وڑہ یا واڑہ ماموند (یعنی چھوٹا ماموند) بھی کہا جاتا ہے۔ چُونکہ پشتون بُنیادی طور پر قبائلی ہیں، اس لیے ان میں ٹبّر، قومیں، قبیلے اور خیلیں تو ہیں، لیکن ذاتیں پاتیں وغیرہ نہیں ہیں۔ لٰہذا “کاکازئی” کوئی ذات نہیں ہے، بلکہ ایک قبیلہ ہے۔

البتہ اگر آپ مندرجہ بالا معلومات کو جاننے کے باوجُود “ملک”، “شیخ’، “آغا”، “پاشا”، “میر”، “سردار” یا  صرف”زئی” وغیرہ اپنے نام کے استعمال کرنا چاہتے ہیں، جو کہ کاکازئی (لوئی ماموند) ہرگز ہرگز نہیں ہیں، اور آپ کا تعلّق فی الحقیقت کاکازئی قبیلہ سے ہے، تو اس صُورت میں “خان” یا “کاکازئی” استعمال کرنا کہیں زیادہ ضروری، منطقی اور احسن ہے۔ کیونکہ ضرورت اس بات کی ہے، کہ آپ کو، بحیثیت ایک کاکازئی پشتون کے، “ملک”، “شیخ”، “آغا”، “پاشا”، “میر”، “سردار” یا صرف “زئی” وغیرہ کو اپنے نام کے ساتھ استعمال کرنے سے خود بھی اجتناب کرنے چاہیے اور اپنے اہل وعیّال کو بھی منع کرنا چاہیے۔

 


 

!خیبر پختونخواہ  سے باہر رہنے والے بھائیوں اور بہنوں کی راہنمائی  کے لیے

کیا “کاکازئی” کوئی ذات ہے یا یہ ایک قبیلہ ہے؟

کاکازئی (لوئی ماموند)” ایک قبیلہ ہے، کوئی ذات نہیں ہے۔”

کاکازئی (لوئی ماموند) بُنیادی اور نسلی طور پر ترکلانی کی اولاد اور سڑبنی پشتون ہیں۔ چُونکہ پشتون بُنیادی طور پر قبائلی ہیں، اس لیے ان میں ٹبّر، قومیں، قبیلے اور خیلیں تو ہیں، لیکن ذاتیں پاتیں وغیرہ نہیں ہیں۔ لٰہذا “کاکازئی” کوئی ذات نہیں ہے، بلکہ ایک قبیلہ ہے۔

کاکازئی (لوئی ماموند) “ملک”، “شیخ’، “آغا”، “پاشا”، “میر”، “سردار” یا  صرف”زئی” وغیرہ ہرگز ہرگز نہیں ہیں۔ اگر آپ کا تعلّق فی الحقیقت کاکازئی قبیلہ سے ہے، تو اس فرق کو، بحیثیت ایک کاکازئی پشتون کے، ہمیشہ یاد رکھیں اور “ملک”، “شیخ”، “آغا”، “پاشا”، “میر”، “سردار” یا صرف “زئی” وغیرہ کو اپنے نام کے ساتھ استعمال کرنے سے خود بھی اجتناب کریں اور اپنے اہل وعیّال کو بھی منع کریں۔

 


 

!خیبر پختونخواہ  سے باہر رہنے والے بھائیوں اور بہنوں کی راہنمائی  کے لیے

کیا کاکازئی (لوئی ماموند) سیّد ہیں؟ کیا کاکازئی اور کاکاؒخیل ایک ہیں؟

سیّد (فارسی میں جمع: سادات/ عربی میں “سیّد ” کی جمع اسیاد یا سوائدہےاور سادات کا لفظ مستعمل نہیں ہے) کا لفظی مطلب سردار کا ہے جو کہ، احتراماً ، ان لوگوں کے لیے مخصوص ہے جو حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہ ؓ بنت محمد رسول اللہ ﷺ کی اولاد سے ہیں۔ عربی میں ان کے لیے شریف کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ سادات ساری دنیا میں پائے جاتے ہیں مگر ان کی زیادہ تعداد عرب علاقوں، ایران، پاکستان، ترکی اور وسط ایشیا میں پائی جاتی ہے۔ سادات سُنّی اور شیعہ دونوں مسلکوں میں پائے جاتے ہیں ۔سادات کی بہت سی اقسام ہیں مثلاً حسنی سادات، حسینی سادات وغیرہ ۔قرآن و سُنّت یا لغّتِ عرب میں سیّد بحیثیت ایک قوم کہیں بھی ثابت نہیں۔ بلکہ محض تعظیم و تکریم کے طور پریہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔

پشتونوں کے جدِامجد، قیس عبدالرشید، کے بار ے میں، بعض روایات کے مطابق، وہ پہلے پشتون تھے جنہوں نے مدینہ حاضر ہو کر وہاں ہمارے پیارے نبی کریم حضرت محمد ﷺ سے ملاقات کی، اسلام قبول کیا او ر نبی کریم ﷺ نے ان کے حق میں دعا بھی کی (بعض روایات میں عصا عطا کرنے کا بھی ذکر ہے)۔ اسی مُناسبت سے ان کو صحابئ رسول ﷺ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا مزارِ اَقدس آج بھی تختِ سلیمان، دارازندہ، ڈیرہ اسماعیل خان، میں موجُود ہے۔

کاکازئی (لوئی ماموند)پشتونوں کے داد، ا ترکانی/ترکلانی /ترکانڑی (جو کہ خود قیس عبدالرشید کے بیٹے، سڑبن، کی اولاد میں سےتھے)، کے چار بیٹے تھے : ماموند، سالارزئی، ایسو زئی اور اسماعیل زئی۔

ماموند( جن کا اصل نام محمود تھا مگر “ماموند” کےنام سے جانے جاتے تھے۔ ان کا مزارِاقدس آج بھی، موضع داگ، تحصیل ماموند، باجوڑ، میں موجودہے۔) ، کاکازئی پشتونوں کے والدِ امجد ، کے دو بیٹے تھے۔ بڑے کی اولاد کو”کاکازئی” اور چھوٹے کی اولاد کو ” ووڑ ” یا “ووڑزئی ” کہا جاتا ہے۔ “کاکا”، پشتو میں بڑے کے لیے احتراماًاستعمال ہوتا ہے۔ اور “زئی” کا مطلب نسل یا اولاد ہے، یعنی “کاکازئی” کا مطلب بڑے کی نسل یا اولاد ہے۔ اسی مُناسبت سے ان کو لوئی ماموند یعنی بڑا ماموند بھی کہا جاتا ہے۔ “ووڑ ” پشتو میں چھوٹے کے لیے استعمال ہوتا ہے، یعنی ” ووڑزئی ” کا مطلب چھوٹے کی نسل یا اولاد ہے۔ اسی مُناسبت سے ان کو ووڑ/واڑہ ماموند یعنی چھوٹا ماموند بھی کہا جاتا ہے۔ کاکازئی (لوئی ماموند) پشتونوں کی بُنیادی خیلوں کے نام درج ذیل ہیں: محسود خیل، خلوزئی، محمود خیل، دولت خیل، عمرخیل، مغدود خیل، یوسف خیل

حضرت شیخ سیّد کستیر گلؒ ،المعروف کاکا ؒصاحب(جیسا کہ پہلے بیان کیاجا چکا ہے کہ “کاکا” پشتو میں احتراماً کسی بڑے کےلیے استعمال ہوتا ہے اور چونکہ پشتون اولیاء کرام اور بزُرگانِ دین کا دل سے بہت احترام کرتے ہیں، اسی لیے پشتون ان کو کاکاؒ صاحب کہتے ہیں۔)، جو کہ نسباًحضرت امام جعفر الصادق (آپ امام محمد باقر کے بیٹے امام زین العابدین کے پوتے ، شہید کربلا امام حسین ؓکے پڑپوتے اور شیعہ اثنا عشریہ کے چھٹے امام تھے۔ فقہ جعفریہ کی نسبت اِنہی کی طرف منسوب ہے۔) کی اولاد میں سے تھے، کی ولادت یکم رمضان 981 ہجری مطابق 25 دسمبر 1573ء، جمعہ کی شب صبح صادق کے قریب کنڑہ خیل کوہسار نوشہرہ میں ہوئی۔ آپ کا اسمِ گرامی رحمکار، والد کا نام شیخ بہادر المعروف ابک بابا ، دادا کا نام مست بابا (انکا مزار شیخ رحمکارکے مزار سے سات میل دور ہے۔) اور پردادا کا نام غالب گل بابا (انکا مزار نظامپور کے پہاڑوں میں واقع ہے بڑا دشوار گزار علاقہ ہے مگر لوگ زیارت کرتے ہیں)تھا۔ آپ تمام صوبہ سرحد اور اکناف و اطراف میں کاکاؒصاحب کے نام سے مشہور ہیں۔

چُونکہ کاکاؒصاحب پشتونوں کے علاقے میں پیدا ہوئےاور ان کا خاندان پشتونوں کے ساتھ ایک عرصے سے قیام پذیرہے، اس لیےان کے خاندان کے لوگوں کو “کاکاؒخیل”یعنی کاکاؒصاحب کاخاندان کہا جاتا ہےاور کاکاؒ خیل (کاکاؒصاحب کاخاندان) کو دیگر پشتون قبائل کی ملتی جلتی اور خیلوں (مثلاً یوسف زئی اور خٹک کی خیلوں میں سےایک خیل ، کاکاخیل بھی ہے۔) کے ساتھ نہیں جوڑا جاتا۔ کاکاؒ خیل (کاکاؒصاحب کاخاندان) ہندکو، پشتو، فارسی اور جس علاقے وہ مُقیم ہیں ، اس علاقے کی زبانوں کو اپنانے اور بولنے(کسی بھی اور قوم اور قبیلے کی طرح) کے ساتھ ساتھ اپنے ناموں کے ساتھ عموماً ، محض “کاکاؒ خیل” ، “سیّد”، “میاں”، “شاہ”، “آغا” اور پشتونوں کے مستعمل نام مثلاً “گل” ، “جان”، “خان”وغیرہ بھی لگاتے ہیں۔بعض کاکاؒخیل اپنے ناموں کے ساتھ کاکاؒخیل (کاکاؒصاحب کاخاندان) کی بجائے “کاکاؒ زئی” (بہ معنی کاکاؒصاحب کی نسل یا اولاد) لگاتے ہیں ، جو کہ کاکازئی (لوئی ماموند) پشتونوں، جو کہ پشتونوں کے جدِ امجد قیس عبدالرشید کے بیٹے، سڑبن، کی نسل یا اولاد میں سے ہیں، سے یکسر اور نسلی اعتبار سے مُختلف ہے ۔

لہٰذا کاکازئی (لوئی ماموند) سیّد نہیں ہیں ، نہ کاکازئی(لوئی ماموند ) اور کاکاؒ خیل (کاکاؒصاحب کاخاندان) ایک ہیں اور نہ ہی کاکازئی (لوئی ماموند) پشتونوں کی بُنیادی خیلوں (ذیلی قبیلوں ) میں “کاکاخیل ” نام کی کوئی خیل ہے۔ کاکازئی (لوئی ماموند) بُنیادی اور نسلی طور پرصرف اور صرف پشتون ہیں۔