حجرہ ایک بار پھر کھولنا ہوگا

Bajaur (باجوڑ / بجوڑ) - Kakazai (Loi Mamund) Pashtuns' Ancestral Land in Pakistan

تحریر: ڈاکٹر سردار جمال
جنوری 25، 2020

حجرے کا رواج پشتون معاشرے میں زمانہ قدیم سے چلا آرہا ہے۔ حجرے کا وجود، جرگے کے معرض وجود میں آنے کے بعد آیا ہے جس کا ایک اپنا تاریخی پس منظر ہے۔ ہر معاشرے کے افراد میں تُو تُو، میں میں ہوتی ہے۔ ان باتوں کا ازالہ کرنے کے لیے سفید پوش اہم رول ادا کرتے ہیں۔ اس طرح پشتون معاشرے کے سفید پوش اوّل سے لے کر اب تک نیک انسانوں کا رول ادا کرتے رہے ہیں۔

ہزاروں سال پہلے پشتون معاشرے کے سفید پوش اپنے لوگوں کے مسائل حل کرنے اور ان کے درمیان صلح کرنے کی عرض سے ایک مخصوص جگہ پر اکٹھے ہو جاتے تھے اور یہاں گھنٹوں گھنٹوں کی نشست کی جاتی تھی۔ ہر سفید پوش اپنی اپنی رائے پیش کرتے اور آخر میں تمام دلائل اور ثبوت کی روشنی میں فیصلہ کرتے۔ جرگے کی اس جگہ کو محفوظ اور مؤثر بنانے کی عرض سے حجرے کی بنیاد رکھی گئی تاکہ جرگے کے بزرگوں کو جرگہ کرتے وقت تمام مسائل مثلاً آندھی ،طوفان اور بارش وغیرہ سے بچایا جاسکے اور اپنا جرگہ بغیر کسی خلل کے پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں۔

پشتون معاشرے میں حجرے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ حجرے نے پشتون قوم کی پرورش میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ حجرہ پشتون معاشرے کی عدالت تھا۔ یہاں گاؤں کے لوگوں کے فیصلے کیے جاتے تھے۔ اسی طرح معاشرہ جنگ و جدل سے بچ جاتا اور معاشرے میں امن ہوتا تھا۔ گاؤں کے بزرگ تمام دن حجرے میں بیٹھے رہتے تھے اور گاؤں کے مسائل پر بات چیت کرتے تھے ۔ اگر گاؤں میں کبھی دو افراد کے درمیان کوئی شر پیدا ہونے لگتا تو بزرگ شر پیدا ہونے سے پہلے پہلے ان کے درمیان صلح کراتے اور پیدا شدہ صورتحال کا ازالہ کرتے تھے ۔ اسی طرح گاؤں کے لوگ تھانے اور عدالتوں کے چکروں سے بچ جاتے اور پیدا شدہ مسئلہ گھنٹوں اور منٹوں میں حل ہو جاتا تھا۔ حجرہ پشتون قوم کا اسمبلی حال تھا۔ یہاں تمام دن گاؤں کے مسائل پر بات چیت ہوتی تھی اور پیدا شدہ مسائل کا حل ڈھونڈا جاتا تھا اور عملی طور پر ہر فرد لوگوں کی مصیبتوں میں شامل ہو جاتا تھا۔ حجرہ پشتون قوم کی پارلیمنٹ تھا۔ پوری طرح بات چیت ہونے کے بعد یہاں آخری فیصلہ کیا جاتا تھا۔ یہاں جرگے کے بزرگ فیصلے سناتے تھے وہ فیصلہ ہر حال میں قابل قبول ہوتا تھا۔ ایسے فیصلے بہت جلد سنائے جاتے تھے۔ اسی طرح ہر شہری کو فوری اور سستا انصاف مل جاتا تھا۔ سستا اور فوری انصاف ملنے کی بدولت معاشرے میں جنگ، جھگڑے اور قتل و غارت نہیں ہوتی تھی۔

حجرہ پشتون قوم کا اولڈ سینٹر تھا۔ یہاں گاؤں کے بزرگ اکٹھے ہوتے تھے اور اپنے درمیان تبادلہ خیال کرتے تھے۔ اسی طرح بوڑھے ذہنی خلفشار سے بچ جاتے اور ذہنی طور پر خوش و خرم ہوتے تھے۔

حجرہ پشتون قوم کے جوانوں ، چھوٹوں اور بوڑھوں کے لیے تفریح کی جگہ تھی۔ یہاں ثقافتی پروگرام منعقد کیے جاتے تھے جس میں موسیقی سٹیج اور سیاسی پروگرام شامل تھے۔ حجرہ میں غم اور خوشی کے پروگرام منعقد کیے جاتے تھے جہاں گاؤں کے تمام لوگوں کو اکٹھے ہونے اور تبادلہ خیال کرنے کا موقع مل جاتا تھا۔

حجرہ پشتونوں کا مہمان خانہ تھا جہاں وہ اپنے مہمانوں کو لاتے تھے۔ اس کے علاوہ مسافر لوگ بھی گاؤں کے حجرے جاتے اور وہاں ان کے کھانے اور سونے کا بندوبست کیا جاتا تھا۔

حجرہ ذہنی پرورش کا ادارہ تھا جہاں بزرگ اور عقل مند لوگ اچھی اور پند و نصیحت سے بھری باتیں کرتے تھے اور جوان ان کو سن کر ان پر عمل کرتے تھے۔

حجرہ پشتون قوم کا بیچلر ہاسٹل تھا جہاں گاؤں کے تمام نوجوان رات گزارتے تھے، رات کو گپ شپ لگانے کے بعد سو جاتے تھے اور صبح سویرے اٹھ کر اپنے کھیتوں کو کام کرنے جاتے تھے۔

حجرے نے قوم کی ذہنی پرورش میں اہم رول ادا کیا ہے۔ حجرہ گاؤں کی زینت ہے جہاں قوم کی اصلاح کی جا سکتی ہے مگر بد قسمتی سے اب ان اداروں کو تالے پڑے ہوئے ہیں اور پشتون قوم ایک بہت اہم ادارے سے محروم ہو چکی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پشتونوں کے یہی ادارے ایک بار پھر کھول دیے جائیں تاکہ بوڑھوں کو بیٹھنے اور جوانوں کو ذہنی پرورش کی جگہ ایک بار پھر مل سکے۔ اسی طرح معاشرہ تمام جرائم سے پاک ہو جائے گا اور معاشرے کے افراد کو امن اور سکون کی زندگی مل جائے گی۔

اس دور جدید میں بہت سارے ادارے انسان کی ذہنی پرورش کرنے کی عرض سے کام کرتے ہیں جس میں سکول، کالج، یونیورسٹی، مساجد، پریس، میڈیا اور مختلف قسم کے این جی اوز وغیرہ شامل ہیں۔ مگر انسان دن بدن ذہنی پسماندگی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ پرانے زمانے میں یہ تمام ادارے نہ ہونے کے برابر تھے۔ پھر بھی انسان بھلائی کے بارے میں سوچتے تھے۔ اب یہ تمام ادارے ہوتے ہوئے بھی انسان صرف اور صرف برائی کا سوچتا ہے۔ انسان ہوس اور لالچ کا شکار بن چکا ہے۔ ہر فرد صرف اپنی سوچتا ہے خواہ اپنی ہوس کو پورا کرنے کے لیے دوسرے انسانوں کا خون کیوں نہ بہایا جائے۔ انسان ایسا کیوں اور کیسے بنا؟ ان سوالوں کا جواب بہت آسان ہے ۔ ہم کو ذرا پیچھے جانا ہوگا یعنی فطرت کی طرف جانا پڑے گا اور فطری زندگی کو اپنانا ہوگا۔

فطری زندگی قناعت ہے اور ایسا کرنے کے لیے ذہنی پرورش کرنا ہوگی اور ذہنی پرورش کے لیے ہمارے ساتھ حجرہ موجود ہے۔ ایک بار پھر حجرہ کھولنا ہوگا۔ حجرہ بند ہونے سے بہت سارے مسائل نے ہم کو لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ حجرے میں نوجوان اخلاقیات کا سبق حاصل کرتے تھے اور اخلاقیات کے زیور سے آراستہ نوجوان ہمیشہ بھلائی کے بارے میں سوچتا ہے۔

© Daily Shahbaz – www.dailyshahbaz.com